انٹرویو کا فن
انٹرویو کیا ہے؟ ..انٹرویو کے فن کا موجد کون ہے؟.. سب سے پہلے کس نے کس سے انٹرویو لیا تھا؟.. کس اخبار نے سب سے پہلے انٹرویو شائع کرنے کی ریت ڈالی؟.. انٹرویو کی ابتدا کیسے ہوئی؟.. انٹرویو کی تعریف کیا ہے؟ ۔۔انٹرویو کی آج کل کتنی اہمیت ہے؟۔۔ انٹرویو کن شخصیات کا لیا جاتا ہے؟۔۔ انٹرویو کون لے سکتا ہے؟۔۔ انٹرویو لینے کی تیاری کیسے کی جاتی ہے؟۔۔ انٹرویو کے نفسیاتی پہلو اور خارجی عوامل کیا کیا ہیں؟۔۔ انٹرویو یپنل کے افراد کیسے ہونے چاہیئں؟ ۔۔پینل پر مشتمل افراد کی صلاحیتیں کیسی ہوں؟۔۔ کیا ایک شخص بھی انٹرویو لے سکتا ہے؟۔۔ انٹرویو کے فنی تقاضے کیا ہوتے ہیں؟ اور کیسے پورے کیے جاتے ہیں؟۔۔انٹرویو کی کتنی اقسام ہیں؟۔۔ خبری انٹرویو کیا ہوتا ہے؟۔۔ معلوماتی انٹرویو کیسے اور کن سے لیا جاتا ہے؟ ۔۔مذاکراتی انٹرویو کیا ہوتا ہے؟۔۔ شخصی انٹرویو کن شخصیات سے لیا جاتا ہے؟۔۔ انٹرویو کے دوران اپنے مہمان سے برتاﺅ کیسے رکھا جاتا ہے؟۔۔ انٹرویو کہاں کہاں لیا جاسکتا ہے؟۔۔ انٹرویو کی ہنٹس اور اشارے کیسے ہوتے ہیں؟۔۔ انٹرویو لینے والوں کے لیے راہنما ہدایات کیا ہیں؟۔۔جس سے انٹرویو لیا جارہا ہے، اس کے بارے میں معلومات کہاں سے اور کیسے حاصل کی جاتی ہیں؟۔۔ انٹرویو لینے کے قدیم اور جدید اسلوب کیا کیا ہیں؟۔۔فرینڈلی انٹرویو کیا ہے؟ ۔۔فکسڈ اور طے شدہ انٹرویو کیسے لیا جاتا ہے؟۔۔ آج کل کیسے انٹرویو کیے جارہے ہیں؟۔۔ انٹرویو لینے کے جدید طریقے کیا کیا ہیں؟۔۔ انٹرویو کے سوالات کیسے تیار کیے جاتے ہیں؟۔۔ انٹرویو ریکارڈ کرنے کے بعد کے مراحل کیا کیا ہوتے ہیں؟۔۔ انٹرویو لکھنا کس کی ذمہ داری شمار ہوتی ہے؟۔۔ انٹرویو لکھا کیسے جاتا ہے؟۔۔ انٹرویو لکھنے کے بعد بنایا کیسے جاتا ہے؟۔۔ انٹرویو کی نوک پلک سنوارنا کس کی ذمہ داری میں آتا ہے؟۔۔ انٹرویو کی تلخیص کیسے کی جاتی ہے؟ انٹرویو سے خبر کیسے بنائی جاتی ہے؟۔۔انٹرویو کی سرخیاں کیسے بنائی جاتی ہیں؟۔۔ انٹرویو کی ذیلی، ہائی لائٹ کیسے نکالی جاتی ہیں؟۔۔ آج کل انٹرویو کا جدید ٹرینڈ اور رواج کیا ہے؟۔۔ حقیقی یا فرینڈلی عملاً کیسے کیسے انٹرویو شائع ہورہے ہیں؟۔۔ صحافت کے میدان میں نووارد انٹرویو کا فن کیسے سیکھ سکتے ہیں؟۔۔ انٹرویو کے لیے تعلقات کیسے بنا اور نبھاسکتے ہیں؟۔۔ انٹرویو کا فن کتنا مشکل اور کتنا آسان ہے؟۔۔ کس کے لیے بہت مشکل اور کس کے لیے بالکل آسان ہے؟
آئیے! درج بالا سوالات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
انٹرویو کے لیے اردو میں “محادثہ” ، “ملاقات” ، “گفتگو” ، “بات چیت” ، “ہمکلام” وغیرہ لفظ ہو سکتے تھے لیکن اردو کے وسیع دامن میں “انٹرویو” سما گیا ہے۔انٹرویو نگاری، مکتوب نگاری کی طرح آج ایک باقاعدہ فن بن چکی ہے۔
وہ گُر جانتے ہیں جن کے حاصل ہونے کے بعد آپ کا شمار ایک اچھے ”انٹرویوور“ (Interviewer) میں ہونے لگے گا۔ آپ کے کیے ہوئے انٹرویوز کی دھوم مچ جائے گی۔
انٹرویو کی تاریخ اور تعریف : انٹرویو کے فن کو اخباری دنیا میں متعارف کروانے والے لوگوں میں سے ایک نام ”جیمز گورڈن بینٹ سینئر“ (James Gordon Bennett, Sr.) ہے۔ اپریل 1836ءمیں اخبار کی تاریخ میں پہلا انٹرویو اپنے اخبار میں شائع کیا۔ 1839ءمیں ”بینٹ“ ہی وہ پہلا آدمی اور ”نیویارک ہیرالڈ“ پہلا اخبار تھا جس میں کسی ملک کے صدر کا انٹرویو شائع ہوا۔
انٹرویو کا فن: کتنا مشکل، کتنا آسان :”انٹرویو“ ہر اس ملاقات کو کہتے ہیں جس کا مقصد حقائق، آراء، انکشافات اور نئی معلومات حاصل کرنا ہو۔ نووارد شاید یہ سمجھتے ہوں کہ انٹرویو ایک رسمی گفتگو ہے اور بالکل عام اور آسان کام ہے۔ ایسا ہر گز نہیں، بلکہ انٹرویو بڑی مہارت، تکنیک، ہنر اور فن کا کام ہے۔ انٹرویو لینے والے میں بہت سی خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔واقعتا ایسا ہی ہے۔ یہ کام بظاہر جتنا آسان نظر آتا ہے اندر سے اتنا ہی مشکل ہے۔ اگر آپ کو انٹرویو کا فن آتا ہے تو آسان ہے۔ انٹرویو دینے والا خواہ کتنا ہی سخت مزاج، تنہائی پسند اور بولنے کا روادار نہ ہو، لیکن اگر آپ اپنے کام کے ماہر ہیں، اور بات اُگلوانے کا ہنر اور فن جانتے ہیں تو آپ بہت کچھ نکلوالیں گے۔چنانچہ انٹرویو لینے والے حضرات کے لیے ضروری ہے کہ وہ حاضر دماغ، تیز طرار، اعلیٰ تعلیم یافتہ، ہوشمند، ذہین و فطین، خوش مزاج، باتونی، صاحب مطالعہ، وسیع ظرف اور مختلف زبانوں سے واقفیت رکھنے والا ہوں۔
مشہور شخصیات کے تعارف حاصل کرنے کے طریقے : دوسری بات یہ ہے کہ جس کا انٹرویو لیا جارہا ہے اس کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہیں۔ انٹرویو دینے والے شخص کے حالات سے آگاہی ہونی چاہیے کہ بچپن کیسا اور کہاں گزارا؟ تعلیم کہاں کہاں سے حاصل کی؟ والدین کا کیا کردار رہا؟ خاندانی پس منظر اور ذاتی دلچسپیاں کیا کیا ہیں؟ دوست کون کون ہیں؟ کن مناصب اور عہدوں پر فائز رہے؟ کھانے میں کیا ڈشیں پسند ہیں؟ کن کن کاموں کا ذوق رکھتے ہیں؟ کھیل کون سے پسند ہیں؟ دوستیاں اور دشمنیاں کن کن سے ہیں؟ آل اولاد کتنی ہیں؟ کتنی شادیاں ہیں؟ مشاغل کیا کیا ہیں؟ کون کون سے فن اور ہنر جانتے ہیں؟ آباءو اجداد کیسے تھے؟حاصل یہ کہ ان کی بائیوگرافی آپ کو ازبر ہونی چاہیے۔مثال کے طور پر شیخ رشید سے انٹرویو کیا جارہا ہے تو آپ کو ان کے بارے میں اول تا آخر مکمل معلومات ہونی چاہیےں کہ یہ کن کن جماعتوں میں کس کس عہدے پر فائز رہے؟ کن کن جماعتوں میں کیا کیا کردار ادا کیا؟ کون سے اتحاد بنانے میں شریک رہے؟ خاندانی پس منظر کیا ہے؟ جس موضوع پر انٹرویو کیا جارہا ہے اس موضوع پر ان کا مطالعہ اور تجربہ کتنا ہے؟ ظاہر ہے شیخ رشید سیاسی شخصیت ہیں، ان سے آپ علمی سوالات نہیں کرسکتے؟ ۔ اگر علمی، دینی مسئلے پر بات کرنی ہے تو پھر آپ کو مفتی محمد تقی عثمانی کا انتخاب کرنا ہوگا۔ جس فیلڈ اور فن کا آدمی ہے اسی سے متعلق سوالات کریں، اسی کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں۔ اگر آپ ”یوگا“ کے بارے میں معلومات چاہتے ہیں تو یوگا کے ماہر کسی ”یوگی“ کو تلاش کریں۔اب سوال یہ ہے کہ ان حضرات کا تعارف کہاں کہاں سے حاصل کیا جائے؟ تو یاد رکھیں! مشہور شخصیات کا تعارف ”انسائیکلوپیڈیا“ اور ”وکی پیڈیا“ سے مل جاتا ہے۔ اسی طرح ان پر لکھی گئی کتابوں سے مل جاتا ہے، ان کے دوست احباب سے بھی معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ اپنے جاننے والے اس فن کے ماہرین اور اپنے سینئرز سے بھی پوچھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ”Who is Who“ (کون کیا ہے؟؟) میں بھی اس کے حالات پڑھے جاسکتے ہیں۔ کسی باخبر شخصیت سے بھی اس کے حالات و واقعات پوچھے جاسکتے ہیں۔جب انٹرویو دینے والے سے متعلق آپ مکمل معلومات حاصل کرلیں، ان سے ملاقات کا وقت بھی طے ہوگیا اور جگہ بھی مقرر ہوگئی اور جس موضوع پر بات چیت کرنی ہے وہ بھی فائنل ہوگیا تو اب آپ انٹرویو کی تیاری کریں، یعنی سوالات کا خاکہ تیار کریں۔ وائس ریکارڈر، کیمرہ مین، فوٹوگرافر اور دورانِ انٹرویو آپ کی مدد کے لیے ہیلپر کے طور پر کوئی دوسرا شخص ہویا نہیں؟ اس کا ابھی سے سوچیں۔
انٹرویو لینے کے د وطریقے : دراصل انٹرویو لینے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ اکیلا شخص ہی مہمان کے روبرو بیٹھ کر دو بدو انٹرویو لے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ”پینل انٹرویو“ ہو۔ اگر پینل انٹرویو ہے تو پھر پہلے سے طے کرلیا جائے کہ کون سا سوال کون کرے گا؟ ساری باتیں پہلے سے ہی طے اور متعین کرلی جائیں۔ ورنہ عین وقت پر شرمندگی اُٹھانی پڑسکتی ہے۔دورانِ انٹرویو اگر کسی مسئلے پر سخت اور تلخ جوابات کا سامنے کرنا پڑے تو انٹرویو لینے والا صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے۔ انٹرویو دینے والا غیرمتوقع رائے کا اظہار کرے تو تجاہلِ عارفانہ سے کام لے کر ایسی رائے بھی برداشت کریں۔ وہ جو کچھ کہنا چاہ رہے ہیں، انہیں بولنے دیں۔ آپ اطمینان سے ریکارڈ کرتے رہیں، کیونکہ انٹرویو کی کس بات کو شائع کرنا ہے اور کس کو نہیں، اس کا فیصلہ بعد میں ہوتا ہے۔ اگر مہمان اور انٹرویو دینے والا انٹرویو دینے کے بعد کسی بات پر اصرار کرے کہ اس کو نہ شایع کیا جائے تو بہتر اور اصولی بات یہی ہے کہ اس کو نہ شائع کیا جائے، کیونکہ بعض اوقات بے خیالی میں منہ سے ایسی بات بھی نکل جاتی ہے جو مناسب نہیں ہوتی۔دورانِ انٹرویو اگر کوئی اعلیٰ عہدیدار، افسر، سفیر، وزیر، بیوروکریٹ، جنرل، کرنل…. کسی بات پر روشنی ڈالنے سے ہچکچائے تو ا سے مختلف طریقوں سے قائل کیا جائے اور ترغیب دی جائے کہ اس کا فرض ہے کہ وہ عوام کو صحیح حالات سے باخبر کرے۔ اگر وہ ”سوال اُن کا جواب ہمارے“ کے فارمولے پر عمل کرے تو پھر دورانِ انٹرویو صحافی اپنے مہمان پر دھونس جمانے کی کوشش نہ کرے اور کوئی ایسی حرکت بھی نہ کرے جس سے بداخلاقی اور بدتمیزی کی بو آرہی ہو۔دورانِ انٹرویو مسلسل مخاطب کی طرف دیکھتا رہے۔ ضروری نوٹس بھی لیتا رہے۔ صحافی کو کبھی بھی صرف اپنی یادداشت اور وائس ریکارڈر پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ کچھ لوگوں کو انٹرویو سے تامل اور پریشانی ہوتی ہے، انہیں شیشے میں اُتارنے کے لیے کئی حربے، کئی جتن اور نفسیاتی پہلو بھی اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ اور پھر وہ جو کچھ بھی بولے انہیں آزادی سے بولنے دیں۔ اسی طرح انٹرویو کے شروع میں ہلکی پھلکی اور رسمی باتیں کرنی چاہییں، تاکہ متعلقہ شخصیت کو اصل موضوع کی طرف آنے اور لانے میں آسانی رہے۔یہ بھی یاد رکھیں کہ انٹرویو کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اور آپ کس قسم کا انٹرویو لینے جارہے ہیں؟ پہلے سے طے کرکے جائیں۔ مثال کے طور پر شخصی انٹرویو ہے۔ شخصی انٹرویو فیچر کی ایک قسم کی حیثیت رکھتا ہے۔ شخصی انٹرویو میں کسی بڑی شخصیت کے خدوخال اور حال احوال ہلکے پھلکے اور دلچسپ انداز میں پیش کیے جاتے ہیں۔ ان کے تجربات سے استفادہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں شخصیت کی سوانح اور کارنامے بھی بیان ہوتے ہیں۔اسی طرح معلوماتی انٹرویو بھی کیا جاتا ہے۔ معلوماتی انٹرویو کا دائرئہ کار بہت وسیع ہوتا ہے۔ معلوماتی انٹرویو عموماً ایسے افراد سے کیا جاتا ہے جو اپنے فن میں مہارت رکھتا ہو تاکہ اس کے فن سے دوسرے لوگ بھی فائدہ اُٹھاسکیں۔ مثال کے طور پر کسی ماہرِ تعلیم سے انٹرویو، کسی ماہر امراض سے انٹرویو، کسی دانشور سے انٹرویو خطوط کے ذریعے لیے گئے “انٹرویو” کی اپنی جگہ اہمیت و مقبولیت ہے۔ گو کہ ایسے انٹرویوز میں ماحول، منظرنگاری اور بےساختگی، برجستگی والی روبرو گفتگو کا عنصر نہیں ہوتا۔ پھر بھی ایسے انٹرویو اپنے اندر معلومات کا خزانہ اور انکشافات رکھتے ہیں۔….
انٹرویو کی اقسام : انٹرویو کی ایک قسم ”خبری انٹرویو“ کہلاتی ہے۔ یہ اس وقت کیا جاتا ہے جب کسی ادارے یا حکومت کی طرف سے کوئی غیرمتوقع یا بڑا فیصلہ ہوتا ہے تو اس وقت اس فن اور کام کی ماہر شخصیت سے رائے معلوم کی جاتی ہے کہ آیا یہ فیصلہ درست ہے یا نہیں؟ اس فیصلے کے اچھے، برے کیا کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ مثال کے طور پر حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ ہفتہ وار چھٹی اتوار کے بجائے جمعہ کے دن ہو اکرے گی، یا یومِ اقبال پر چھٹی ختم کی جاتی ہے تو ماہرین سے انٹرویو کرکے پوچھا جاتا ہے کہ جمعے کی چھٹی کے فوائد کیا ہیں؟ اور نقصانات کیا کیا ہوسکتے ہیں؟“ ایک قسم مذاکراتی انٹرویو بھی ہے۔ اس میں مختلف طبقات اور عوام سے بھی پوچھا جاتا ہے کہ فلاں مسئلے پر آپ کی کیا رائے ہے؟ پھر ان سب کے تاثرات جمع کرکے رپورٹ یا ڈاکومنٹری کی صورت میں شائع اور نشر کردی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر انٹرویو کی دس بارہ قسمیں ہیں، لیکن ان سب میں قدرِ مشترک کسی اہم شخصیت سے کام کی بات اُگلوانی اور عوام کے لیے ان کے دل کی بات کہلوانی ہوتی ہے۔
انٹرویو میں باڈی لینگویج کی اہمیت : باڈی لینگویج کے ماہرین نے نوجوان اور کم عمر افراد کے لیے اس زبان یعنی باڈی لینگویج کے ذریعے کامیابی کے حصول کے کئی طریقے بھی وضع کیے ہیں۔ ”اگر آپ کہیں انٹرویو دینے جائیں تو ابتدائی دس سیکنڈ جب آپ چل کر جاتے ہیں اور بورڈ کے سامنے بیٹھتے ہیں ، بے حد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس دوران آپ کا اعتماد بحال رہنا چاہیے، قدم وہیں پڑنے چاہییں جہاں آپ کو رکھنے ہیں اور پھر نشست پر اطمینان سے جا کر بیٹھ جانا بہت ضروری ہوتا ہے۔یہیں سے آپ کے اچھے مستقبل کی بنیاد پڑنے والی ہے۔ اسی طرح چہرے پر ہمہ وقت ایک دوستانہ دھیمی سی مسکراہٹ اعتماد کی بحالی کی ضامن ہے۔ ہمیشہ آمد اور رخصت کے وقت پر جوش انداز سے ہاتھ ملائیں، یہ کسی بھی کامیاب ملاقات کی ضمانت ہے۔
اظہارِ رائے کا ایک مستند ذریعہ : آج ”باڈی لینگویج“ دنیا بھر میں اظہار رائے کا ایک مستند طریقہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا سے ایسے کئی پروگرام نشر ہوتے ہیں جن کے میزبان مدعا بیان کرنے کے لیے الفاظ سے کہیں زیادہ ہاتھوں اور چہرے کے تاثرات کا استعمال کرتے ہیں۔
انٹرویو سے پہلے، دورانِ انٹرویو اور انٹرویو کے بعد کیمرہ مین، فوٹوگرافر یا از خود کیمرے کے ذریعے مختلف چیزوں کی تصاویر لینے کا اہتمام کرنا ہوتا ہے۔ اگر انٹرویو کے دوران انہوں نے کسی پر الزام لگایا ہے یا کوئی ایسا دعویٰ کیا تو پھر ان کے پاس موجود ثبوتوں کا عکس بھی اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنا ہوتا ہے تاکہ قارئین کے سامنے الفاظ یا آواز کے ساتھ ثبوتوں کی تصاویر بھی دیکھنے کو ملیں۔
انٹرویو کی چند جدید صورتیں : آج کل انٹرویو کی کئی جدید اور نئی نئی شکلیں اور صورتیں آچکی ہیں جس نے پہلے کے رواج اور ٹرینڈ کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب چار قسم کے انٹرویو زیادہ تر مشہور و مقبول ہورہے ہیں۔ پہلی قسم یہ ہے کہ ملک کی یا پھر بین الاقوامی شخصیت کو چینل کے اسٹوڈیو میں بٹھاکر ٹی وی کا اینکر پرسن، رسمی دعا سلام کے بعد مختلف موضوعات پر سوالات کرتا ہے اور مہمان اس کا جواب دیتا جاتا ہے۔
بعض اوقات یہ انٹرویو بالکل لائیو بھی چل رہا ہوتا ہے۔ اس لائیو انٹرویو کے لیے انٹرویو دینے والے اور انٹرویو لینے والے دونوں کا اپنے اپنے فن میں ماہر اور پر اعتماد ہونا ضروری ہے ورنہ وہ مضحکہ بن جائیں گے۔
دوسری قسم کا انٹرویو یہ ہے کہ کسی موضوع کو مقرر کرکے دونوں حضرات یعنی انٹرویو دینے والا اور انٹرویو لینے والا پہلے تفصیلی تبادلہ خیال کرلیتے ہیں کہ کیا کیا سوالات ہوں گے؟ اور پھر انٹرویو کے بعد شائع اور نشر وہی کیا جاتا ہے جس پر دونوں کا اتفاق ہوجائے کہ یہ بات چلانی ہے اور یہ حذف کردینی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ 2 گھنٹوں کا انٹرویو لیا گیا، لیکن اس میں سے نشر صرف 10 منٹ کا کیا گیا۔
اسی کی دوسری صورت فکسڈ اور طے شدہ انٹرویو ہے، یعنی سوال و جواب پہلے سے طے شدہ ہوتے اور سوالات اور جوابات بعض اوقات تحریری صورت میں لکھے ہوئے بھی سامنے رکھے ہوتے ہیں۔ بعض اینکر ایسا بھی کرتے ہیں کہ باقاعدہ طے کرلیتے ہیں کہ میں یہ پوچھوں گا تو آپ نے یہ جواب دینا ہے، اور اسی طرح انٹرویو دینے والی شخصیت بھی کہتی ہے کہ ”مجھ سے یہ سوال پوچھیں!“ اس فکسڈ انٹرویو کو کسی بھی حلقے میں پسند نہیں کیا جاتا ہے۔
انٹرویو کی ایک اور صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی موضوع پر زندگی کے مختلف حلقوں اور شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات…. سب سے ایک ہی قسم کا سوال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر قومی اسمبلی کے ممبران، وزرائ، بیوروکریٹ، ججز، وکلائ، ڈاکٹرز، پروفیسرز، علمائے کرام، مذہبی راہنما، سماجی کارکن، طلبہ و طالبات، تاجر کمیونٹی، اقلیتی برادری اور عوام…. سب سے ایک ہی قسم کے دو تین سوال پوچھے جاتے ہیں۔ پھر وہ دیکھتے ہیں کہ کس طبقے کے لوگوں نے اس موضوع پر کیا رائے دی؟ سب کو جمع کرکے آخر میں ایک رپورٹ بناکر پرنٹ میڈیا پر شائع اور الیکٹرانک میڈیا پر نشر کردی جاتی ہے۔
آج کل اس کا بہت رواج ہوگیا ہے۔ ایک اینکر، رپورٹر اور نامہ نگار کے ہاتھ میں مائیک ہوتا ہے۔ اس کا کام صرف سوال کرنا ہوتا ہے۔ وہ مختلف افراد سے پوچھتا چلا جاتا ہے اور دوسرا اس کے ساتھ کیمرہ مین ہوتا ہے۔ جو ہر ہر اہم موقع کی تصاویر بنارہا ہوتا ہے، اس کا کام مناظر کو فلمانا ہوتا ہے۔ یہ دو افراد ہی دن بھر ایک متعین موضوع اور مقرر کردہ سوالات کے جوابات مختلف حلقوں اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے کرتے رہتے ہیں۔
چوتھی صورت یہ ہوتی ہے کہ صحافی اور نمایندہ اپنے دفتر میں بیٹھا رہتا ہے۔ ڈائری میں مختلف حضرات کے فون نکال کر ان سے رابطہ کرتا رہتا ہے، یا ایس ایم ایس اور میسج کے ذریعے پیغام دیتا ہے کہ میں فلاں اخبار، چینل، رسالے، میگزین اور ویب ٹی وی کا نمایندہ ہوں، اور فلاں موضوع پر آپ سے فون پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ بعض اوقات سوال لکھ کر میسج بھی کردیا جاتا ہے تاکہ وہ اس کے جواب کی تھوڑی بہت تیاری کرلے اور پھر ٹیلی فون اور موبائل پر بھی ساری بات چیت کرلی جاتی ہے۔ اخبارات میں روزانہ کی بنیاد پر شائع ہونے والے انٹرویو اسی طرح فون پر ہی کیے جاتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر ہر لمحہ نشر ہونے والے انٹرویو بھی اسی طرح فون پر ہی کیے جارہے ہیں۔ اس صورت میں انٹرویو دینے اور انٹرویو لینے والے دونوں کے لیے ہی سہولت ہے۔ یہ انٹرویو عموماً مختصر سے ہوتے ہیں۔ اور اکثر اوقات رپورٹر، صحافی، اینکر اور انٹرویو کرنے والا اپنی رپورٹ میں ان کے خیالات کو پیش کردیتا ہے کہ اس موضوع پر فلاں نے یوں کہا اور فلاں نے یہ کہا ہے۔ ان کے الفاظ کو بعینہ کم ہی نقل کیا جاتا ہے، بس مفہوم لکھ دیا جاتا ہے۔
انٹرویو کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ : انٹرویو کی ایک نئی شکل یہ ہے کہ کسی بھی حوالے سے کسی بھی مشہور شخصیت کے ساتھ کچھ دن، گھنٹے اور وقت گزارا جاتا ہے۔ ان کی روٹین، حالات، آمدو رفت، کام کاج، حالاتِ زندگی، گھریلو مصروفیات، دفتری کام، نجی، عائلی اور خانگی حالات، والدین، بیوی، بچوں، دوستوں، استادوں اور عوام کے ساتھ رکھ رکھاﺅ، بول چال کو نوٹ کیا جاتا ہے اور پھر کئی دن تک اس انٹرویو کی ایڈیٹنگ ہوتی رہتی ہے۔ نوک پلک سنواری جاتی ہے۔ پھر کہیں جاکر یہ تفصیلی انٹرویو شائع اور نشر کیا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ انٹرویو دینے والے شخص کی زندگی کے سارے پہلو اور تمام گوشے عوام کے سامنے آجائیں۔
انٹرویو لینے کے بعد کا مرحلہ ہوتا ہے انٹرویو کو کاغذ پر اُتارنا، لکھنا۔ انٹرویو کیسے لکھا جاتا ہے؟ یہ ایک مستقل فن ہے۔ یہ بھی پہلے سیکھنے اور مشق کرنے سے آتا ہے۔ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ انٹرویو کو کاغذ پر نقل کرنے والے افراد الگ ہوتے ہیں۔ انٹرویو لینے والے کا کام صرف انٹرویو لینا ہی ہوتا ہے۔ انٹرویو لینے والے افراد انٹرویو کرنے کے بعد متعلقہ شعبے میں دے دیتے ہیں۔ اس شعبے میں انٹرویو لکھنے کے لیے مستقل افراد رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ لکھنے کا کام وہ سرانجام دیتے ہیں۔
انٹرویو لکھنے کے طریقے: انٹرویو لکھنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ پورے انٹرویو کو اسی طرح لفظ بلفظ صفحہ قرطاس پر منتقل کریں جس طرح انٹرویو دینے والے نے کہا ہے، پھر محاورتاً اور ترتیب سے لکھیں، ایک قسم کی باتوں کو ایک ساتھ جمع کرکے لکھیں، پھر نوک پلک سنواریں، ناتمام جملے مکمل کریں۔ دوسری صورت انٹرویو لکھنے کی یہ ہوتی ہے کہ ایک دو مرتبہ غور اور توجہ سے سنیں۔ پھر ذہن میں خاکہ بنائیں کہ کس طرح انٹرویو نقل کرنا ہے؟ پہلے ان کی بات سنیں اور پھر اپنے انداز سے نقل کرتے جائیں۔ یہ بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے، کیونکہ انٹرویو دینے والے کی بات کا مفہوم نہیں بدلنا چاہیے، ورنہ کئی غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ انٹرویو لکھتے وقت اس بات کا بہت خیال رکھا جائے کہ کہیں کوئی غلط بات انٹرویو دینے والے کی طرف منسوب نہ ہوجائے۔ انٹرویو کاغذ پر اُتارنے کا فن آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ محنت اور مشق کرنے سے سیکھا جاسکتا ہے۔
بہرحال! کسی بھی طریقے سے جب انٹرویو حتمی شکل پر کاغذ پر منتقل ہوجائے تو پھر انٹرویو کا عنوان، ذیلی، ہائی لائٹس، اوورلائن اور اینڈ لائن وغیرہ نکالی جاتی ہیں۔ انٹرویو کا عنوان کالم اور مضمون کے عنوان سے بالکل ہٹ کر ہوتا ہے۔ انٹرویو کے عنوان کا طریقہ یہ ہے کہ انٹرویو دینے والی کی کسی دلچسپ، بامعنی اور خوبصورت بات کو عنوان کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ ذیلی اور ہائی لائٹ میں مختلف اہم باتوں کو دیا جاتا ہے تاکہ قاری کی انٹرویو پڑھنے میں دلچسپی پیدا ہو۔
آج کل کے دور میں انٹرویو مستقل فن کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ تمام بڑے اخبارات کے دفاتر میں اور ٹی وی چینل ”ہاﺅسز“ میں انٹرویو کا الگ ڈیپارٹمنٹ ہوتا ہے۔ اس شعبے کے تحت کئی تقرریاں ہوتی ہیں۔ کیمرہ مین، فوٹوگرافر، انٹرویور، انٹرویو نگار، انٹرویو پروڈیوسر اور ان سب کے ہیلپرز اور معاونین، اور کئی جونیئر ہوتے ہیں۔
اے نووارد شخص! اگر تیرا ذوق ”انٹرویو کا فن“ سیکھنا ہے تو پھر شعبہ انٹرویو سے منسلک کسی سینئر جرنلسٹ کے ساتھ را ہ و رسم پیدا کرلے۔ انٹرویو کرنے والے کا وائس ریکارڈر سنبھال لے۔ فوٹو گرافر کا کیمرہ اُٹھالے، ویڈیو بنانے والے استاذ کا دامن تھام لے، انٹرویو نگار کا پروف ریڈر بن جا، شعبہ انٹرویو کے ذمہ دار کا خادم بن جا، انٹرویو ڈیپارٹمنٹ کے پروڈیوسر کا نِکّو بن جا، کسی نہ کسی طرح انٹرویو کے اس ڈیپارٹمنٹ اور شعبے میں گھس جا۔اسی طرح تعلقات بنا، تعلقات کی تعلیم حاصل کر ، آئی آر میں ماسٹر کر، خدمت کر، محنت کر، استقامت دکھا۔ اس فن کے سیکھنے کے دوران پیش آنے والی مشکلات پر صبر کر۔ دو چار سال اس شعبے میں ڈَٹا رہ۔ اپنی علمی اور فنی صلاحیتوں میں اضافہ کرتا چلا جا۔ مطالعہ بڑھاتا اور لکھتا جا۔ اپنے سینئرز کی ڈانٹ ڈپٹ خوشی سے سہہ جا، غصے کے کڑوے گھونٹ پی جا، انٹرویوکے موضوع پر لکھی گئی کتابیں چاٹ جا، انٹرویو دیکھا اور پڑھا کر۔ اگریہ نہیں کرسکتا تو پھر اس شعبے میں کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں۔