مقابلے کا مضمون کیسے لکھیں؟
آئے دن اخبارات اور جرائد و رسائل میں ”مقابلے کا مضمون لکھیں “ کا اشتہارہوتا ہے۔
جیتنے کی اُمنگ، سیکھنے کا جذبہ اور کچھ کر گزرنے کا عزم آپ کو اس وقت ضرور اپنی صلاحیت کو آزمانے کی دعوت دیتا ہے،
پہلا مرحلہ اعلان کو سمجھنا ہوتا ہے۔
عام طور پر اعلان پڑھ تو لیا جاتا ہے، اسے سمجھ کر ذہن نشین نہیں کیا جاتا۔
اعلان کے مندرجات، شرائط، درست رابطہ نمبر اور دیگر ضروری معلومات نوٹ کریں۔
کسی حوالے سے وضاحت مطلوب ہو تو براہ راست دریافت کریں۔
یار دوستوں کے مشورے اور وضاحت پر اکتفا نہ کیا جائے۔
ضرورت کے مطابق متعلقہ افراد سے موضوع اور عنوان کے جملہ پہلووں سے متعلق ان کی منشا اور مراد معلوم کرلیں۔
اعلان، اشتہار اور عنوان کو سرسری لینا آپ کی ناکامی کا پہلا نشان ہو گا۔
اگلا مرحلہ عنوان کو سمجھنا ہوتا ہے۔ تحریری مقابلے کا عنوان بہت سوچ سمجھ کر، اجتماعی غور و فکر کے بعد طے کیا جاتا ہے۔
جس کا تعلق حالات حاضرہ سے بھی ہوتا ہے اور منتظمین کے کچھ خصوصی و عمومی مقاصد کا ترجمان بھی، لہٰذا عنوان کی گہرائی و گیرائی وغیرہ ہر ایک چیز پہلے سے طے ہوتی ہے۔
سب سے پہلے تو عنوان کا تجزیہ کیجیے۔
پھر مواد کے حصول کی طرف بڑھیے۔
عنوان سمجھنے میں نکتے کی بات یہ ہے کہ ہر عنوان میں در اصل ایک دعوی پوشیدہ ہوتا ہے۔
آپ عنوان کے ظاہری الفاظ سے اس دعوے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
اس کے بعد اس بنیادی نکتے کے اثبات کے لیے دلائل، حقائق اور اعداد وشمار جمع کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔
تیسرا مرحلہ تحریرلکھنے سے پہلے لکھنے کی بنیادی باتیں جاننا ہوتا ہے۔
مقابلے کی شرط کے مطابق تحریر طویل ترین بھی ہو سکتی ہے اور انتہائی مختصر بھی۔
ہر نوعیت کی تحریر کے فنی تقاضے جدا ہیں،
خوب یاد رکھیے مقابلہ دس افراد کے درمیان ہے یا دس ہزار کے مابین۔
دمِ تحریر ہمارا ہدف یہ ہو گا کہ ان سارے مضامین کی درجہ بندی میں ہماری تحریر سب سے اوپر رکھے جانے کے قابل ہو۔
اسی ہدف کے پیش نظر حوصلہ بلند، ظرف وسیع اور محنت کا معیار اعلی ترین اختیار کرنا پڑے گا۔
ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہمیں وہ تمام خصوصیات اپنے مضمون میں پرونی پڑیں گی، جو ایک بہترین تحریر میں ہو سکتی ہیں،
تاکہ مضمون کو جس زاویے سے پرکھا اور جس ترازو سے تولا جائے، وہ سو ا سیر ہی نکلے۔
قواعد انشا، تشبیہات، استعارات، محاورات ، ضرب الامثال، اعداد وشمار، حقائق…. ان تمام کا بھرپور استعمال کریں۔
علاوہ ازیں مضمون کی ظاہری سجاوٹ، پیراگرافنگ اور سیدھی سطروں وغیرہ کا اہتمام کر کے ”پہلی نظر، حتمی نظر“ والے اصول پر پورا اترنے کی کوشش کریں۔
انتہائی باریک بینی سے اپنے موضوع کا بار بار جائزہ لے کر سب سے پہلے متعلقہ کتب اور انٹرنیٹ سے مواد تلاش کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ اس فن کی شخصیات سے رابطہ کرنا نہ بھولیے۔
کچھ دن کے لیے اس موضوع کو اپنے دل و دماغ پر سوار کر لیں، پھر دستیاب کتب اور شخصیات کو کھنگال ڈالیں۔
آپ مطالعہ کرتے ہوئے ذہن میں رکھیں کہ کون سی باتیں آپ کی ضرورت کے عین مطابق ہیں؟
کن کا درجہ موضوع سے مطابقت کے لحاظ سے ثانوی اور کون اس کے بعد؟
تینوں درجے کا مواد کتابوں و غیرہ سے اخذ کر کے کسی نوٹ بک میں جمع کرتے جائیں۔
فی الحال اس بات کی فکر چھوڑ دیں کہ اسے کیسے ترتیب دیں گے؟
کن الفاظ میں لکھیں گے؟
کس کو پہلے ذکر کریں گے اور کسے بعد؟
ضبط و ترتیب تب دیکھی جائے گی جب ہم گلدستہ سجانے بیٹھیں گے۔
تاہم یہ ضروری ہے آپ کا ذہن مسلسل اس بابت سوچ رہا ہو ۔
اس کے بعد کا مرحلہ تحریر لکھنا ہوتا ہے۔
نشان زدہ مقامات، حاصل شدہ اقتباسات اور اخذکردہ اعدادو شمار پر ایک بار پھر نظر ڈالیں۔
ان میں سے اہم ترین کی دوبارہ چھانٹی کریں۔
اس مرحلے سے گزر کر اب قلم کاغذ تھام کر لکھنے کا آغاز کریں۔
تحریر شروع کرنے سے پہلے اگر شرح صدر کی مسنون دعائیں اور نوافل ادا کر لیں تو بڑی آسانی رہے گی۔ اللہ کی خاص مدد شامل حال ہو گی۔
لکھتے ہوئے خوب پیش نظر رہے کہ آپ کا ہر جملہ منفرد اور تحقیق کا بھرپور مظہر ہونا چاہیے۔
آپ عام تحریر نہیں، مسابقت میں قدم رکھے ہوئے ہیں۔
جہاں حرف حرف تولا اور لفظ لفظ کی قیمت لگائی جائے گی۔
انداز تحریر جو بھی نوک قلم پر آجائے، اختیار کر لیں۔
کسی معروف قلم کار کی ہو بہو یا قریب قریب ”نقل“ تحریر کی اہمیت کو کم کر دے گی۔
سب سے زیادہ توجہ عمدہ مواد کی فراہمی پر اور اس کے بعد اسلوب تحریر کی خوبصورتی پر رہنی چاہیے۔ لفاظی، ادبی اسلوب اور ضرورت سے زیادہ توضیح مقررہ جگہ کو کم اورموضوع سے دور لے جائے گی۔
بعینہ اقتباس نقل کرنے کی صورت میں مکمل حوالہ ضرور دیں۔
مضمون اگر ہزار، بارہ سوالفاظ کا ہے تو لکھنے میں بس یہی ہدایات کافی ہوں گی،
تاہم اگر مختصر مقالہ لکھ رہے ہیں تو موضوع کو ضرورت کے مطابق ذیلی عنوانات میں تقسیم کر دیں ۔ مذکورہ نوعیت کے عناوین دلچسپ ہونے چاہییں۔
کسی محاورے ، ضرب المثل یا مصرعے کے ذریعے عنوان قائم کریں تو تحریر کا حسن دو آتشہ ہو جائے گا۔ عنوان اس انداز سے قائم کریں کہ ان پر سرسری نگاہ ڈالنے سے عنوان یا موضوع کا احاطہ کر رہے ہوں۔ گھسے پٹے اشعار اور دیگر زبانوں کے نجی سطح کے محاورے ہرگز استعمال نہ کریں۔
یادرکھیں!تحریر میں تحقیق مطلوب ہوتی ہے، جذباتیت نہیں۔
آپ کے مضمون پر وقار، سنجیدگی اور معقولیت کی فضا طاری رہنی چاہیے۔
مضمون خواہ شدت کا متقاضی ہی کیوں نہ ہو، حد سے زیادہ نہ بڑھیں۔
الفاظ کی جنگ میں تحقیق کے اسلحے کا استعمال خوبی اور خوبصورتی سے کریں۔
آپ کی ایک مضبوط دلیل، گالم گلوچ سے بھری کتاب سے زیادہ اثر کرے گی۔
تحریر مکمل ہو جانے کے بعد اب اس کی ظاہری و معنوی خوبصورتی کے لیے کوشش کی جائے گی۔
تعمیر کے بعد اب تزئین کا مرحلہ درپیش ہو گا۔
خوش نویسی کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہو۔
رموز اوقاف مکمل اور درست ہوں۔
جملے مختصر اور پیراگراف زیادہ طویل نہ ہوں۔
یہ سب پتے کی باتیں ہیں، جس قدر ممکن ہو سکے ان کا اہتمام کریں۔
تحریر بھیجنے سے پہلے یہ تسلی کرلیں کہ آپ نے مضمون کے ساتھ اپنا پورا مختصر سا، لیکن جامع تعارف بھی لکھ دیا ہے۔
اصل نام، قلمی نام ،رابطہ نمبر اور شناختی کارڈ نمبر لازمی لکھا ہوا ہونا چاہیے،
کیونکہ بعض اوقات کوئی بات سمجھنے کے لیے رابطے کی فوری ضرورت پیش آتی ہے۔
موبائل نمبر ہو گا تو آسانی سے تحقیق کر کے تشفی کر لی جائے گی۔
سب سے آخری مرحلہ بروقت اور مقررہ ٹائم سے پہلے پہلے تحریر پوسٹ کرنے کا ہوتا ہے۔
آپ کوشش کریں کہ مقررہ وقت اور ٹائم سے 3 دن پہلے ہی اپنی تحریر بھیج دیں۔ عام ڈاک، ٹی سی ایس، فیکس اورای میل جس طرح بھیجنے کی ہدایت کی گئی ہے اسی طریقے کے مطابق بھیجیں۔
ضروری ہے کہ بھیجنے کے بعد اشتہار میں دیے گئے نمبر پر فون کرکے اطلاع بھی دے دی جائے کہ میں نے فلاں موضوع پر اس ایڈریس پر اپنی تحریر بھیجی ہے۔
میں تسلی کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو موصول ہوگئی ہے۔
خلاصہ بحث : مذکورہ بالا بحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مقابلے کے مضمون میں شرکت کے لیے پانچ ابتدائی مراحل ہیں ۔
پہلا مرحلہ : اعلان کو سمجھنا۔
دوسرا مرحلہ : عنوان کو سمجھنا ۔
تیسرا مرحلہ : قبل از تحریر کی پانچ بنیادیں ۔
چوتھا مرحلہ : تحریر کیسے کریں ؟
پانچواں مرحلہ : مضمون لکھنے کے بعد ۔
یاد رکھئے ! عنوان کو سمجھنا کامیابی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔سمجھ نہ آنے والی بات کا خود سے کوئی مفہوم متعین نہ کریں ۔اگر عنوان کو سمجھ کر اس کا نہایت درست تجزیہ کرنے میں آپ کامیاب رہے تو کامیابی آپ کا مقدر ٹھہرے گی ۔ ان شاء اللہ ۔
تحریری مسابقے میں شامل ہونا کئی فوائد کا حامل ہے ۔ اگر کبھی آپ کو موقع ملے تو اس مقابلے میں ضرور شرکت کرنی چاہیے ۔