lesson # 4

fann e tehreer course

آپ بیتی کیا ہے؟

اپنے حالات زندگی یا اپنے اوپر گزرنے والے واقعات کو خود تحریر کرنا یعنی اپنی زبانی بیان کرنا آپ بیتی کہلاتا ہے۔ آپ بیتی کسی انسان کی اپنی کہانی کا دوسرا نام ہے۔ ،’’خود نوشت انسان کی وہ روداد ہے جسے وہ خود بیان کرتا ہو۔انسانی زندگی کے کچھ واقعات و لمحات ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں انسان عمر بھر بھلا نہیں سکتا۔ ایسے کئی دلچسپ واقعات وہ اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب کے درمیان بیان کرتا رہتا ہے۔ ان میں سے کچھ واقعات کو زیرتحریر بھی لاتا ہے مثلاً زندگی کے تلخ و شیریں واقعات، مختلف نشیب و فراز، خوشی و غم کے لمحات قلم بند کرتا ہے جسے خودنوشت (سوانح عمری) کہا جاسکتا ہے۔ادب کی دنیا میں عام طور پر لوگ اپنی آپ بیتیاں لکھتے ہیں۔ یعنی اپنے حالات ذندگی کو کسی کہانی کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔ ایک عمدہ آپ بیتی کا انحصار لکھنے والے کے زورِ بیان، قوت مشاہدہ اور معلومات پر ہوتا ہے۔

آپ بیتی لکھنے کے لیے ضروری ہدایات:

۱۔ آپ بیتی کا صیغہ واحد متکلم یعنی ’میں ‘ ہونا ضروری ہے۔

۲۔ تحریر کا مناسب خاکہ تیار کر لینا چاہیئے تاکہ لکھتے وقت تحریر بے ربط نہ ہو بلکہ منظم رہے۔

۳۔ آپ بیتی کی طوالت مناسب ہونی چاہیئے۔ نہ بہت کم ہو اور نہ ہی بہت زیادہ کہ پڑھنے والے کی دلچسپی ختم ہو جائے۔

۴۔ آپ بیتی میں حقیت بیانی کا رنگ ہونا چاہیئے۔ سادہ اور سلیس زبان کا استعمال کرنا چاہیئے۔مصنوعی یا پر تکلف زبان کا استعمال نہیں ہونا چاہیئے۔

۵۔ آپ بیتی کو شگفتہ اور دلچسپ ہونا چاہیئے۔ اس مقصد کے لیے چھوٹے موٹے اشعار اور لطیفے وغیرہ شامل کیے جا سکتے ہیں۔

ایک معیاری اور دلچسپ آپ بیتی تحریر کرنے کے لیے پہلی شرط قوّت مشاہدہ اور معلومات کا ہونا ہے۔ مختلف چیزوں کی اصلیت اور حقیقت پر غور کرنا ضروری ہے۔دوسری ضروری بات یہ ہے کہ قوت تخیّل کا ہونا بہت ضروری ہے۔تیسری اہم بات یہ ہے کہ لکھاری کے پاس مناسب ذخیرہ الفاظ موجود ہو۔ اور لکھاری اس ذخیرہ الفاظ کے استعمال پر بھر پور قادر ہو۔ بعض اوقات لوگوں کے پاس بہت سے مشاہدات اور تجربات ہوتے ہیں لیکن بیان کرنے کے لیے وہ مناسب الفاظ، یا دوسرے لفظوں میں زور بیان نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے تحریر اثر انگیز اور دلچسپ نہیں بن پاتی۔ زور بیان تحریر کی جان ہوتی ہے جو باقی چھوٹی موٹی خامیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔خودنوشت کے ذریعے صرف ایک فرد کی زندگی کے گوشے ہی نہیں بلکہ اس دور کے متعلق بہت سی جانکاری ملتی ہے جسے اس دور کی تاریخ بھی کہا جاسکتا ہے۔  آپ بیتی میں بے باک سچائی اور خلوص کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔خود نوشت کے فن میں تین اہم عناصر ہیں۔ لکھنے والے کی یاداشت،  لکھنے والے کا اسلوب ، اور لکھنے والے کے اردگرد کا حلقہ رجال واحباب۔

خود نوشت نگاری کے بنیادی لوازم کیا ہیں

” محض یاد داشت کی بنیاد پر خود نوشت سوانح مرتب کرنا درست نہیں؛ بلکہ مصنف کو اپنے حالات و واقعات کی صحت مندی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ تاکہ اپنے متعلق کوئی بھی غلط بات یا غلط حقائق قارئین کی نذر نہ کردے۔”آپ بیتی کسی انسان کی زندگی کے تجربات، مشاہدات، محسوسات و نظریات کی مربوط داستان ہوتی ہے،  جو اس نے سچائی کے ساتھ بے کم و کاست قلم بند کردی ہو، جس کو پڑھ کر اس کی زندگی کے نشیب و فراز معلوم ہوں

 اردو کی دس بہترین خود نوشت سوانح عمریوں کی  فہرست

کتابوں کے زمانۂ تصنیف و اشاعت کے لحاظ سے اسے مرتب کیا گیاہے

۱۔ کالا پانی(۱۸۸۴ء)   جعفر تھانیسری کی اس کتاب کا اصل نام ’’تواریخ ِ عجیب ‘‘ ہے لیکن یہ ’کالا پانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جعفر تھانیسری تقریباً اٹھارہ سال جزائر انڈیمان (Andaman Islands) میں قید رہے جو عرف ِ عام میں کالا پانی کہلاتا تھا ۔ ان کو انگریزوں نے ’’بغاوت ‘‘ کے جرم میں۱۸۶۴ء میں گرفتار کیا اور ۱۸۶۶ء میں جزائر انڈیمان بھیج دیا ۔واپسی پر انھوں نے وہاں کے حالات لکھے ۔

۲۔اعمال نامہ (۱۹۴۳ء)   سر رضا علی وکیل اور سیاست داں تھے اور قیام ِ پاکستان سے قبل اعلیٰ عہدوں پر رہے۔ ان کے اردو ، فارسی اور انگریزی ادب کے گہرے مطالعے اور اعلیٰ ذوق نے ان کی خود نوشت ’’اعمال نامہ‘‘ کو سیاسی حالات کے علاوہ اس دور کے ادبی اور معاشرتی حالات کی بھی خوب صورت تصویر بنادیا ہے۔

۳۔خوں بہا (۱۹۴۳ء)    حکیم احمد شجاع شاعر و ادیب بھی تھے اورقیام ِ پاکستان سے قبل پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے معتمد بھی رہے ۔ ان کی اس خود نوشت کاابتدائی حصہ ان کی نظم و نثر کے لیے مختص ہے اور ایک سو بانوے صفحات کے بعد ان کی آپ بیتی شروع ہوتی ہے۔ رواںادبی اسلوب میں زندگی کے اہم واقعات بالخصوص اپنے علی گڑھ کے دور طالب علمی کے ایام کا ذکر والہانہ انداز میں کرتے ہیں۔

۴۔مشاہدات (۱۹۵۵ء)    ہوش یار جنگ ہوش بلگرامی کی یہ خود نوشت اردو کی ان کتابوں میں شامل ہے جن پر پابندی لگائی گئی۔ ہوش یار جنگ کا اصل نام ناظر الحسن تھا۔ حیدرآباد دکن کی ریاست میں بڑے عہدوں پر رہے اور نظام دکن کے بہت قریبی مصاحب سمجھے جاتے تھے۔ اپنی دور بینی اور مصلحت آمیزی کی بناپر ریاست سے ہوش یار جنگ کا خطاب بھی پایا اور بعد میں زیر عتاب بھی رہے۔ یہ نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کے عروج و زوال کی داستان ہے بلکہ ریاست دکن کی بھی تاریخ ہے۔

۵۔عمرِ رفتہ (۱۹۵۸ء)   نقی محمد خاں خورجوی ادیب بھی تھے اور قیام ِ پاکستان سے قبل پولیس میں اعلیٰ افسر بھی رہے۔ پولیس کے محکمے میں ہونے کے باوجود ان کی دیانت داری اور شرافت مثالی رہی۔ شاہد احمد دہلوی کے اصرار پر انھوں نے اپنی خود نوشت لکھی

۶۔سرگزشت (۱۹۶۲ء)  سید ذوالفقار علی بخاری جو بالعموم زیڈ اے بخاری کے نام سے جانے جاتے ہیں، شاعر اور ادیب بھی تھے لیکن قیام ِ پاکستان سے قبل آل انڈیا ریڈیو اوربعد میں ریڈیو پاکستان سے وابستگی نے انھیں زیادہ شہرت دی۔ روزنامہ حریت میں ۱۹۶۲ء میں اپنی آپ بیتی ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے قسط وار لکھنی شروع کی (اس نام سے ایک خود نوشت عبدالمجید سالک نے بھی لکھی ہے )۔ یہ کتابی صورت میں ۱۹۶۶ء میںمنظر ِ عام پر آئی۔

۷۔ کتاب ِ زندگی (۱۹۶۷ء)   اس خود نوشت کی مصنفہ قیصری بیگم کا تعلق مولوی نذیر احمد دہلوی کے خاندان سے تھا۔ کتاب کی زبان سادگی ،روانی اور دلی کی ٹکسالی اردو کا نمونہ ہے ۔ اس میں دلی کے علاوہ حیدرآباد دکن کی تہذیب و تمدن کی بھی جھلکیاں ہیں آج سے کوئی ساٹھ سال پہلے کیے گئے سفرِ حجاز کی روداد بھی شامل ہے۔

۸۔یادوں کی برات(۱۹۷۰ء)   جوش ملیح آبادی کی خود نوشت ’’یادوں کی برات ‘‘ اردو کی متنازع فیہ کتابوں میں شامل ہے ۔یہ جو ش صاحب کی خوب صورت نثراور ان کی اردو زبان پر قدرت کاسدا بہار نمونہ ہے۔ خاص طور پر جب وہ منظر کشی کرتے ہیں تو سماں باندھ دیتے ہیں۔ ان کی سحر خیزی کی عادت کا ذکر اور طلوعِ صبح کا منظر پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

۹۔زر گزشت (۱۹۷۶ء)   اردو کے ممتاز ترین مزاح نگاروں میں شمار کیے جانے والے مشتاق احمد یوسفی صاحب کا کہنا تھا کہ حسِ مزاح ہی انسان کی چھٹی حس ہے اور یہ حس پاس ہو تو انسان تمام مشکلات سے ہنستا کھیلتا گزر جاتا ہے۔ ان کا یہ فلسفہ ان کی اس خود نوشت میں بھی جھلکتا ہے جس میں انھوں نے پاکستان ہجرت اور اس کے بعد کی مشکلات کا ذکر انتہائی شگفتہ انداز میں کیا ہے۔

۱۰۔ شہاب نامہ(۱۹۸۶ء)   قدرت اللہ شہاب بنیادی طور پرافسانہ نگار تھے ۔ سرکاری افسر کی حیثیت سے اہم ترین عہدوں پر رہے۔ صدر ایوب خان کے سیکریٹری بھی رہے۔ان کے افسانوی اسلوب کی جھلکیاں ان کی اس خود نوشت میں بھی موجود ہیں ۔ ۔اس کے پچاس کے قریب ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور اس کا شمار اردو کی مقبول ترین کتابوں میں کیا جاتا ہے۔

 165 total views,  1 views today

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *