lesson # 7 تبصرہ نگاری

تبصرہ نگاری

تبصرہ نگاری اردو ادب کی جدید ترین اصناف میں سے ایک ہے ،جس کے ذریعے کسی کتاب کے بارے میں بنیادی معلومات  فراہم کی جاتی ہیں۔ تبصرہ کتاب کی اشاعت کے بعد تحریر کیا جاتا ہے،

تبصرہ کی بنیادی شرط کتاب کا ذاتی مطالعہ ہے۔ مصنف کے پس منظر کو سامنے رکھے بغیر کتاب پر جامع تبصرہ نہیں ہوسکتا  ۔تبصرہ لکھنے سے قبل چند بنیادی اور لازمی امور کی طرف توجہ دینا  ضروری ہے

یہ کتاب کس موضوع پر لکھی گئی ہے۔مصنف کے پیش نظراس کتاب کے لکھنے کے وقت جو مقاصد ہوتے ہیں،ہے تبصرے میں اس پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ایک اچھے مصنف کے خیالات میں تضاد نہیں پایا جاتا۔ کتاب کے جائزے کے دوران مبصر اس بات پر نظر رکھتا ہے کہ مصنف کی فکر سطحی ہے یا عالمانہ۔مبصر کو اس بات کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے کہ کہیں یہ کتاب کسی اور کتاب کا سرقہ یا اس کا چربہ تو نہیں؟کسی معروف نسخے کی عکسی طباعت کو ناشر نے اپنا کارنامہ باور کرانے کی کوشش کرکے بددیانتی تو نہیں کی؟اگر کتاب دوبارہ شائع ہوئی ہے تو مبصر کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس ایڈیشن میں کوئی اضافہ ہواہے یا نہیں؟ اگر ہوا ہے تو یہ اضافہ کس قسم کا ہے؟  ایک اچھامبصران متعلقہ مباحث کو بھی نظر میں رکھتا ہے جو کتاب کے موضوع سے تعلق رکھنے کے باوجوداس کتاب میں شامل نہیں کیے گئے۔کتاب کے بارے میں بنیادی معلومات دی جاتی ہیں۔ جن میں کتاب کا نام، مصنف، ایڈیشن، سن اشاعت، صفحات، قیمت، ملنے کا پتہ  ناشر وغیرہ جیسی معلومات شامل ہیں۔

تبصرے کے کم از کم تین اجزا ہوتے ہیں جنہیں تمہید، ارتقا اور خاتمہ کا نام دیا جاسکتا ہے۔کسی بھی مضمون کا تمہیدی جزواہمیت رکھتا ہے۔تمہید میں کتا ب کے مرکزی خیال کوسامنے لایاجاتاہے۔

اصل موضوع میں کتا ب کی صحیح قدروقیمت متعین کی جاتی ہے۔اختتامیہ یہ حصہ تمہید میں پیش کردہ خیالات سے بہت حد تک مربوط ہوتا ہے تاکہ تبصرے کا اختتام منطقی ہو۔اس میں کتاب کی خوبیوں اور خامیوں کا تجزیہ اعتدال ،غیر جانب داری،سنجیدگی اورخیر خواہی کے جذبے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔تبصرے کی تحریر میں توازن بہت ضروری ہے۔ تبصرے کا انداز لکش اور عالمانہ ہوناچاہیے۔کتاب کے معنوی تجزیے کے سا تھ ساتھ اس کی صوری حالت کا جائزہ ِمثلا اس کا کاغذ ، حسن ِترتیب اور سرورق کی جاذبیت وغیرہ،کااختتامیے میں ذکرتبصرہ مصنف کو حوصلہ بخشتا ہے اور اسے اپنی تخلیق پر نظر ثانی کا مشورہ بھی دیتا ہے ‘‘ ۔مکمل اور معیاری تبصرہ وہ ہے جسے پڑھ کر قاری اس کتاب یا دستاویز کے بارے میں یہ رائے قائم کر لے کہ یہ کتاب اس کی ضروریات کی تکمیل کرتی ہے یا نہیں۔ ‘‘تبصرہ نگار کتاب کے صُوری اور معنوی خوبیوں کو اُجاگر کرتا ہے ۔تبصرہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مختصر اور جامع ہو۔تبصرہ پڑھ کر کتاب کے بارے میں بڑی حد تک اندازہ کرلینا کہ اس میں کیا کچھ ہے آسان ہوتا ہے ۔’تبصرہ مصنف کو حوصلہ بخشتا ہے اور اُسے سوچ کے نئے زاوئے عطا کرتا ہے اور اسے اپنی تخلیق پر نظر ثانی کا مشورہ بھی دیتا ہے‘‘۔تبصرہ نگار جو بات بھی کتاب کے بارے میں لکھتا ہے بسا اوقات اسے اس کا جواب بھی دینا پڑجاتا ہے۔ چنانچہ تبصرہ تحریر کرتے وقت احتیاط سے کام لینے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

”تبصرہ لکھنے والا تبصرہ نویس یا تبصرہ نگار کہلاتا ہے جب کہ اس کام کو تبصرہ نویسی کہاجاتا ہے۔ اخبارات میں تبصرہ عموماً مختصرہوتاہے ۔جب کہ جرائد میں کتابوں وغیر ہ پر تفصیل سے بحث کی جاتی ہے

‘جن کتابوں پر مفصل یا مختصر تبصرہ مقصود ہے ان کے بار ےمیں اولین تقاضا یہ ہے کہ پوری کتاب پڑھی جائے ۔کتاب پڑھنے کے بعد دیباچہ ایک بار پھر پڑھ لیا جائے۔اب تحریر کا مرحلہ آتا ہے سب سے پہلے کتاب کا نام،تبصرے کی سرخی کے طور پر دیں اس کے نیچے کتاب کا رسمی تعارف ہو اس میں کتاب کا نام مصنف یا مولف کا نام ملنے کا پتہ ،صفحات کی تعداد اور قیمت درج کر دیجئے ۔اگر مجلد ہو تو اس کا ذکر دیجئے ۔مفصل تبصر ہ کی صورت میں پہلے دو تین یا چار پیروں میں کتاب کا ملخص نہایت دیانتداری کے ساتھ پیش کریں،

آئیے ’’تبصرہ نگاری‘‘ کا فن سیکھیں۔۔

”تبصرہ نگاری“ ایک دلچسپ فن ہے۔ تبصرہ نگار کا ذہین فطین، وسیع المطالعہ، گہری نظر، حاضر جواب، گرم سرد چشیدہ، ماہر، پڑھا لکھا، تیزطرار، اور قادر الکلام جیسی صفات کا حامل ہونا ضروری ہے۔جب تبصرے کا اصطلاحی معنی مراد لیا جائے تو اس وقت خاص اور معروف تبصرہ مراد ہوتا ہے، اوروہ ہے کتب، رسائل، جرائد اور مطبوعات پر تبصرہ، تنقید اور نقد و نظر کرنا

تبصرے کے لغوی معنیٰ ہیں ”تنقید کرنا، توضیح کرنا “ اس معنی کے لحاظ سے آپ کسی بھی چیز پر تبصرہ کرسکتے ہیں۔ اس وقت دونوں ہی معنیٰ مراد ہیں۔ یعنی کتابوں اور مطبوعات پر تبصرہ کرنا بھی اور اس کے علاوہ دنیا جہاں کی چیزوں اور کاموں پر تنقید، تبصرے اور رائے دینا بھی۔یاد رکھیں! تبصرہ نگاری ایک مستقل فن ہے۔ جس طرح دیگر فن سیکھے جاتے ہیں اسی طرح تبصرہ نگاری کا فن بھی سیکھا جاتا ہے۔ کتابوں، رسالوں، جریدوں، اخباروں اور دیگر مطبوعات پر اپنے تاثرات لکھنا ایک باقاعدہ فن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔

کسی بھی کتاب پر تبصرے کے لیے ضروری ہے کہ اس کتاب سے پوری طرح واقفیت پیدا کی جائے۔ کتاب کے مصنف اور مولف کو جانچا پرکھا جائے کہ یہ کون ہیں؟ اس کا عملی اور فنی بیک گراﺅنڈ (Background) کیا ہے؟ یعنی سب سے پہلے مصنف اور مولف سے تعارف اور آگاہی حاصل کی جاتی ہے۔

دوسرے نمبر پر کتاب کے موضوع کو سمجھا جائے کہ کس موضوع اور فن پر یہ کتاب لکھی گئی ہے؟ ” کتاب کے چند صفحات پڑھ لینے سے پوری کتاب کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے، کتاب سے واقفیت اور موضوع سے آگاہی حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کتاب کی تمہید، مقدمے وغیرہ پڑھنے کے بعد کتاب کی فہرست پر ایک نظر ڈالیں۔ اس کے بعد قلم، پنسل یا ہائی لائٹر ہاتھ میں لے لیں۔ کتاب کو چیدہ چیدہ مقامات سے دیکھیں۔ شروع سے آخری صفحے تک دیکھتے چلے جائیں۔ جب شروع سے آخر تک سرسری دیکھ لیں تو پھر الٹے ورقوں یعنی آخری صفحے سے پہلے صفحے کی طرف چیدہ چیدہ مقامات دیکھتے چلے آئیں۔اس دوران خصوصی اور اہم جگہوں کو نشان زدہ اور خط کشیدہ کرتے رہیں۔ اگر کوئی بات اہم ترین لگے تو اس کا حوالہ کتاب کے شروع یا آخر میں جلد کے ساتھ خالی سفید صفحے پر یادداشت کے طور پر نوٹ کرلیں، تاکہ آسانی ہو۔ پوری کتاب کو ایک دو مرتبہ اس طریقے سے دیکھنے کے بعد کتاب کے موضوع، فن اور اس کے جملہ مندرجات سے کسی حد تک واقفیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد کتاب کو رکھ دیں۔کچھ دن تک اس پر غور و فکر کرتے رہیں، سوچتے رہیں، اپنے ذہن میں خاکہ بناتے رہیں کہ اس کتاب میں خاص بات کون سی ہے؟ اور اس کتاب کا طرئہ امتیاز کیا ہے جس کا میں خصوصی طور پر ذکر کروں؟ جب یہ مضمون ذہن میں پک جائے، بالکل تیار ہوجائے تو پھر کاغذ پر خاکہ بنائیں، رف لکھیں، اہم مقامات جن کو آپ نے پہلے سے ہی نشان زدہ اور خط کشیدہ کرکے ممتاز کیا ہوا ہے، اسے ایک نظر پھر دیکھیں۔جب کاغذ پر خاکہ بن جائے، اہم باتیں نوٹ کرلی جائیں، خصوصیات نمبر وائز لکھ لی جائیں۔ اہم ترین پوائنٹ کو نمایاں کرلیا جائے تو پھر اللہ کا نام لے کر تمہید باندھیں۔ تمہید میں تعارف، تصنیف و تالیف کا ایسا پس منظر بیان کیا جاتا ہے، جس سے کتاب کے فن اور موضوع پر روشنی پڑتی ہو۔ اسی طرح تمہید اور ابتدائیے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ یہ مستقل تصنیف شدہ کتاب ہے یا جمع کردہ مواد اور تالیف ہے؟ یہ ترجمہ ہے یا کالموں کا مجموعہ، یا کسی خاص اہم علمی موضوع پر لکھی گئی تحقیق ہے؟ کتاب کا پورا پس منظر اسی تمہید میں بیان کیا جاتا ہے۔

تمہید و ابتدائیے کے بعد دوسرے حصے میں کتاب کے مقام اور مرتبے پر گفتگو کی جاتی ہے۔ اس کتاب کے علمی، ادبی، سیاسی اور فنی باریکیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ تبصرہ نگار اپنے آپ کو عادل قاضی اور منصف مزاج جج کی جگہ پر رکھ کر غیرجانبدار رہ کر منصفانہ اور بے لاگ تجزیہ کرتا ہے۔ کتاب کی خوبیاں اور خامیاں قارئین اور عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے۔ اگر اس اصول کو نہ اپنایا جائے تو تبصرہ نگار کی شخصیت اور ثقاہت مجروح ہوجاتی ہے، اور عوام اسے جانبدار تصور کرنے لگتے ہیں۔

تحریر کے آخری حصے میں عموماً کتاب، جلد، کاغذ، پیپر، چھپائی، طباعت، رنگ اور معیار جیسی کیفیات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ناشر اور مصنف کو مشورے بھی دیے جاتے ہیں کہ وہ ان ان چیزوں کی اصلاح کرے، اور آیندہ ایڈیشن میں اصلاح و ترمیم اور اضافات میں فلاں فلاں باتوں کا خصوصی طور پر خیال رکھے، اور ان ان باتوں سے اجتناب کرے۔ سب سے شروع میں یا آخر میں کتاب کی عام قیمت، رعایتی قیمت، ناشر کا پورا نام، فون نمبر اور کتاب ملنے کے ایڈریس وغیرہ بھی لکھے جاتے ہیں۔

ایک اور بات یاد رکھیں کہ تبصرے اور تقریظ میں فرق ہوتا ہے۔ اگرچہ تقریظ، مقدمے اور پیش لفظ میں بھی انہی اصولوں کو اپنانا چاہیے جو تبصرے کے لیے ہیں، کیونکہ تقریظ، مقدمہ اور پیش لفظ لکھوانے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ اس کتاب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا جائے۔

دیگر کاموں اور مصروفیات کے ساتھ ساتھ تبصرہ نگاری کا فن سیکھنے پر بھی توجہ دیں۔ ابتدا میں مشق کے طور پر آپ ہر ہر چیز اور ہر ہر کام پر تبصرہ کریں ۔یقینا شروع شروع میں اس میں دقت اور مشکل پیش آئے گی، لیکن جب آپ مطالعے، معلومات، حاضرجوابی، عمیق نظری، تیز طراری، قادر الکلامی اور ذہانت سے کام لیں گے تو رفتہ رفتہ آپ کو تبصرہ نگاری اور نقد و تنقید کا فن بھی آنے لگے گا۔تبصرہ نگاری کا فن لکھنے لکھانے کے دیگر کئی کاموں میں آپ کی مدد کرے گا۔ مثال کے طور پر اگر آپ سیاسی کالم نگار بننا چاہتے ہیں تو اس میں بھی تو سیاست پر تبصرہ و تجزیہ کیا جاتا ہے۔ دیکھیں! تبصرہ ہر چیز اور کام پر ہوتا ہے، شخصیات پر بھی ہوتا ہے اور حالات پر بھی۔ صدرِ مملکت پر بھی ہوتا ہے اور رکشہ ڈرائیور پر بھی۔ کتابوں پر بھی ہوتا ہے اور جرابوں پر بھی…. قدرِ مشترک تبصرہ ہے۔ آپ کو صحیح تبصرہ اور تجزیہ اسی وقت آئے گا جب آپ ہر چیز اور ہر کام پر تبصرہ کرنے کی عادت ڈالیں گے۔یہ چند دنوں، مہینوں اور سالوں کی مشق آگے چل کر آپ کو ایک اچھا ادیب، عمدہ انشا پرداز، ثقہ تجزیہ نگار، ماہر دانشور، صاحب طرز مضمون نویس، خوبصورت اینالسٹ اور غیرجانبدار صحافی اور جرنلسٹ بنادے گی۔ تو آج ہی سے تبصرے کا آغاز کیجیے۔ تبصرے کرتے رہیں، آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔ غلط تبصرے کرتے کرتے صحیح تبصرے کرنے لگ جائیں گے، ان شاءاللہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *