ترجمہ نگاری
ترجمہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک کلام کا مطلوب ومقصود دوسری زبان میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کردیا جائے۔کسی مصنف کے خیالات کو ان کو اپنی زبان کا لباس پہنایا جائے ان کو اپنے الفاظ ومحاورات کے سانچے میں ڈھالا جائے اور اپنی قوم کے سامنے اس انداز سے پیش کیا جائے کہ ترجمہ اور تالیف میں کچھ فرق معلوم نہ ہو۔
اقسامِ ترجمہ :۱۔ علمی ترجمہ ۔ علمی ترجمہ عام طور پر لفظی ترجمہ کی ذیل میں آتاہے۔۲۔ ادبی ترجمہ ۔ اس نوع کے ترجمہ کے لیے ضروری ہے کہ بامحاورہ کیا جائے۔۳۔ صحافتی ترجمہ : اسے کھلا ترجمہ کہا جاتاہے۔۴۔ لفظی ترجمہ ۔ لفظی ترجمہ کے معنی یہ ہیں کہ کلام کو ایک زبان سے دوسری زبان میں اس نظم وترتیب کے ساتھ منتقل کردیا جائے جیسے کہ وہ پہلے ہے۔۵۔ تفسیری ترجمہ۔ ایک کلام کا مطلب دوسری زبان میں کھل کر بیان کردیا جائے۔
ترجمہ کیوں ضروری ہے؟ ترجمہ دو تہذیبوں کے مابین پل کا کام دیتاہے۔’’اگر ترجمہ کا دستور نہ ہوتا تو دنیا گونگوں کی بستی ہو کر رہ جاتی۔
ترجمہ کے مقاصد :ترجمہ کے تین مقاصد ہوتے ہیں ۔ پہلا معلوماتی، دوسرا تہذیبی، تیسرا جمالیاتی
ترجمہ میں علما و فقہا کا حصہدینی طور پر ترجمہ کے حوالے سے دیکھا جائے تو علما و فقہا کا ایک اہم کردا ر رہا ہےآج ہم کہہ سکتے ہیں کہ پور کا پورا دین اور اس کے مبادیات کا ترجمہ اردو میں ہوچکا ہے
اصولِ ترجمہ:اصل تصنیف کی زبان، اس کے ادب اور اس کی قومی تہذیب سے نہ صرف واقفیت بلکہ دلچسپی اور ہمدردی بھی ہو۔ ِاصل تصنیف کی زبان سے ایسی واقفیت ہو کہ وہ اس کی باریکیوں، نفاستوں اور تہہ داریوں کو بخوبی سمجھ سکے۔ اصل تصنیف جس عہد اور جس موضوع سے تعلق رکھتی ہے اس کی زندگی اور زبان اور اس موضوع کی اہم تفصیلات سے مترجم کی واقفیت ہو۔ترجمہ کی صلاحیت، دلچسپی اور شوق و انہماک ہو۔
قرآن مجید کا ترجمہ :شاہ ولی اللہ فرماتےہیں کہ آج ہم جس زمانے میں ہیں، اور جس ملک (برصغیر) میں رہتے ہیں، مسلمانوں کی خیر خواہی کا تقاضہ یہ ہے کہ قرآنِ حکیم کا ترجمہ سلیس فارسی زبان میں روز مرہ محاورہ کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے۔ جس کی عبارت ہر قسم کے تصنع، بناوٹ اور خودنمائی سے پاک ہو اور اس میں قصص و واقعات اور غیر ضروری توجیہات و تشریحات کے بجائے آیات کا ترجمہ پیش کیا جائے؛ تاکہ عوام و خواص یکساں طور پر اس کو سمجھیں، اور چھوٹے بڑے ایک ہی نہج پر اس کا شعور حاصل کریں۔
قرآن مجید کا ترجمہ :قرآنِ مجید کا ترجمہ کرنا آسان کام نہیں، زبان سے صرف آشنائی ہی کافی نہیں بلکہ اس زمانے تک پہنچ کر اسی ماحول سے آشنا ہو کر پھر قرآن کے الفاظ پر تدبر کرے تو کافی حد تک اس کا ترجمہ ممکن ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآنِ مجید کا ترجمہ ممکن ہے؟ بسا اوقات تو ایک زبان کا لفظ ٹھیٹ اسی معنی میں دوسری زبان میں ہوتا ہی نہیں اس صورت میں اس کا قریب ترمعنی والا لفظ لینا ہوتا ہے یا پھر لفظ کے معنی شرح کرنے پڑتے ہیں۔ محاوروں اور کہاوتوں کے ساتھ بھی یہی مشکلات ہوتی ہیں۔ دلی میں قرآن شریف کے دو ترجمے ہوئے۔ یہ شاہ ولی اللہ کے دو صاحب زادوں مولانا شاہ رفیع الدین اور ان کے چھوٹے بھائی شاہ عبدالقادر نے کیے۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی زبان کو دوسری زبان میں ڈھالنا اتنا آسان کام نہیں۔ زبان کا بیان قواعد کو سامنے رکھ کر بھی حقیقی معنی میں نہیں لایا جاسکتا ہے لیکن اصل کے قریب ضرور لایا جاسکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ نگاری : ہر زبان میں تخلیقیت کے مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں اور ترجمہ ہی کے ذریعہ انھیں دوسری قوموں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔”ایک زبان کا ادب دوسری زبان کے ادب سے ترجمہ ہی کے ذریعہ مالا مال ہو سکتا ہے۔ا مترجم نہ صرف دونوں زبانوں کی قواعدی ساخت بلکہ ان کی ادبیات سے بھی واقف ہو۔”زبان کے پھلنے پھولنے میں بھی ترجمہ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ترجمے کے ذریعے ہی آج مشرق و مغرب کے درمیان کی دوری ادبی اور لسانی اعتبار سے کم ہو پائی ہے۔دوسرے ادب کے خزانوں کا سراغ ہمیں ترجمے کے ذریعے ہی مل پایا ہے۔ترجمہ نگاری ایسا دریچہ ہے جس سے دوسری قوموں کے احوال ہم پر کھلتے ہیں۔مترجم کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ زبانِ اصل کے مواد کو مکمل طور پر سمجھنے کی قدرت رکھتا ہو۔دوسری شرط یہ ہے کہ مترجم اصل زبان سے پورے طور آشنا ہو ۔مترجم اصل متن کا لفظی ترجمہ نہ پیش کرے۔ایسے الفاظ،تراکیب، محاوروں اور ضرب الامثال کا استعمال کیا جائے جو عام لوگوں کے روز مرہ کے استعمال میں ہوں۔
عبارت کا ترجمہ کرنے کے لیے پانچ بنیاد ی اصول ہیں ۔:ترجمہ حتی الامکان تحت اللفظ نہیں ہونا چاہے۔ترجمہ حتی الامکان محاورۂ زبان کے مطابق ہونا چاہیے۔الفاظ کے وزن اضافی کا خیال رکھنا چاہیے۔حتی الامکان ایسے الفاظ کے ترجمے سے گریز کرنا چاہیے جن کے مترادفات اردو میں پہلے سے موجود نہ ہوں۔اصل عبارت میں جملہ اگر پیچیدہ اور لمبا ہوتو جملے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر لینا چاہے۔ ہر لفظ کا اپنی تہذیبی ثقافتی پس منظر ہوتا ہے۔مترجم کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں زبانوں کی لسانی باریکیوں سے آگاہی رکھتا ہو۔ ترجمہ کچھ اس انداز سے کیا جائے کہ اپنا ذاتی تجربہ معلوم ہو۔ جس زبان سے ترجمہ کرنا مقصود ہو اس زبان کی تاریخ سے آگاہی نہایت ضروری ہے۔
ایک علمی یا ادبی پیکر کو دوسرے پیکر میں ڈھالنے کا عمل ترجمہ کہلاتا ہے۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں مترجم اپنے آپ کو مصنف اور متن کے درمیان سے ہٹا لیتا ہے۔اچھا ترجمہ وہ ہے جو اصل کے ساتھ موازنہ کیے بغیر پڑھا جا سکے۔ترجمہ کی کامیابی کا راز اسی میں مضمر ہے کہ وہ اصل متن سے زیادہ دلکش ہو ۔اس کو پڑھ کر ایسا معلوم ہو کہ وہ ترجمہ نہیں بلکہ طبع زاد تحریر ہے۔نئی اصنافِ ادب کا ورود ہمیشہ ترجمے کے ذریعے ہی ممکن ہوسکا ہے۔اس کے ذریعے طور طریقے ،مذہب ،ادب اورتہذ یب کوسمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔انسانی تہذیب کی ترقی میں ترجمہ ایک اہم رول ادا کرتا ہے ۔قوموں اور زبانوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم اور ربط و ضبط کی راہیں کھولنے کے لیے ترجمہ کی ہی مدد لی جاتی ہے ۔اس کے ذریعے سے نئے نئے اسالیبِ بیان ظاہر ہوتے ہیں۔دوسری زبانوں کے ذخیرۂ ادب سے آشنائی ہوتی ہے ۔معاشرتی اور ذہنی تحریکیں تر جمے کے ذریعے ہی وجود میں آئی ہیں۔زبانوں اور تہذیبوں کے درمیان ایک رشتہ ارتباط قائم ہواہے ۔ترجمے کے ذریعے ہی آج مشرق و مغرب کے درمیان کی دوری ادبی اور لسانی اعتبار سے کم ہو پائی ہے ۔دوسرے ادب کے خزانوں کا سراغ ہمیں ترجمے کے ذریعے ہی مل پایا ہے ۔آزاد ترجمہ میں مترجم اصل متن کے نچوڑ یا مفہوم کو اپنی زبان میں منتقل کرتا ہے ۔ادبی تراجم میں مترجم زیادہ تر آزاد ترجمہ کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ترجمہ کرنے والے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دونوں زبانوں پر دسترس رکھتا ہو ۔اصل تصنیف کی زبان ،اس کے ادب اور اس کی قومی تہذیب سے پوری طرح واقف ہو ۔مترجم کو اسی بنا پر دو زبانوں اوردو قومو ں کے درمیان لسانی اور ثقافتی سفیرکانام بھی دیا گیا ہے ۔جو سب سے اہم شرط ہے وہ ترجمہ نگار کی دلچسپی ،اس کا شوق و انہماک ہے ۔کامیاب ترجمہ وہی ہے جو مفہوم اور تاثیر کے لحاظ سے اصل سے قریب تر ہو ۔ابتدا میں اردو ترجمے عربی اور فارسی زبان سے ہوئے ۔’الف لیلیٰ‘ عربی زبان کی داستان تھی جو فارسی کے توسط سے اردو میں آئی۔داستان امیر حمزہ ، طلسمِ ہو ش ربا،چہار درویش وغیرہ فارسی کی داستانیں ہیں جو اردو میں منتقل ہوئیں۔اردو میں ترجمے کی روایت کو منظم بنانے میں جامعہ عثمانیہ کا خاصہ اہم کردا ر رہا ہے ۔ ا س کا قیام ۱۹۱۸ء میں عمل میں آیا اور یہاں تقریباً ۵۰۰کتابوں کے ترجمے کئے گئے ۔ترجمے کے وسیلہ سے ہی ایک زبان اپنی تنگ دامنی کو وسعت میں تبدیل کرلیتی ہے۔اردو کو ایک باقاعدہ زبان کے مقام پر فائز کرنے میں تراجم کا سب سے بڑا کردار ہے۔اگر سقراط، افلاطون اور مقراطیس کی ہزاروں سال پرانی تصانیف کا عربی زبان میں ترجمہ نہ ہوتا تو یہ قیمتی سرمایہ کبھی کا روم اور یونان کے پرانے کھنڈروں میں دب دبا کر غارت ہوگیا ہوتا۔اسی کے مثل بوعلی سینا، ابو نصر فارابی، ابن رشدکے کارنامے بغداد، غرناطہ اور یروشلم کے کتب خانوں میں ضایع ہوجاتے۔ بہتر یہ ہے کہ دومترجم مل کر ترجمے کا کام کریں۔ ایک وہ ہو جس کی مادری زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہو اور وہ اصل زبان سے بھی(جس کا ترجمہ ہورہا ہو) واقف ہو۔دوسرا شخص اس کے برعکس ہو، یعنی جس زبان میں ترجمہ ہورہا ہو، اسے بہ خوبی جانتا ہو۔ اور جس زبان کا ترجمہ ہورہا ہو وہ بھی اس کی مادری زبان ہو۔
قرآن کریم کے معیاری منظوم ترجمے کرنے والوں میں سیماب اکبر آبادی، کیف بھوپالی اور شان الحق حقی کے نام آتے ہیں۔’’ ترجمے کے شعبے میں دینی مدارس کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں، جن میں ندوۃ العلماء لکھنؤ، دارالعلوم دیوبند، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعہ الفلاح اور جامعہ الاصلاح سرفہرست ہیں۔مذکورہ مدارس میں عربی اور فارسی سے مذہبی اور ادبی کتابوں کے ترجمےکیے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرقمررئیس، ترجمہ کا فن اور روایت،تاج پبلشنگ ہاؤس، مٹیا محل، جامع مسجد، دہلی، بار اول، جون ۱۹۷۶ء ۔۔نثار احمدقریشی ، ترجمہ اور روایت اور فن، نظر ثانی محمد شریف گنجاہی ، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، سن اشاعت ۱۹۸۵ء ۔۔رشید امجد،فنِ ترجمہ کے اصولی مباحث۔ ۔۔خلیق انجم، فنِ ترجمہ نگاری ،انجمن ترقی اردو ہندی نئی دہلی ،طبع سوم۱۹۹۴ ۔۔۔سید باقر حسین‘، ترجمے کے اصول، مرتبہ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد