سفرنامہ
سفرنامہ کا مفہوم یہ ہے کہ دورانِ سفر مسافر جن حالات سے دوچار ہوتا ہے اور جو کوائف اس کو پیش آتے ہیں انھیں وہ صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتا ہے۔ایک اچھے سفرنامے کی خوبی یہ بھی ہونی چاہئے کہ اس کے مطالعے سے قاری بھی سیاح کے ساتھ سفر میں شامل ہو جائے، پڑھنے والے کو محسوس ہو کہ وہ صرف پڑھ نہیں رہا ہے بلکہ وہ بھی سفرکر رہا ہے، اور تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔سفرنامے کے لئے ایک طریقہ یہ ہے کہ سیاح دورانِ سفر پیش آنے والے واقعات، تاثرات اور خاص باتوں کو تاریخی ترتیب کے ساتھ کسی ڈائری میں نوٹ کر لیتا ہے پھر اپنے مقام پر پہنچ کر اس ڈائری کی مدد سے سفرنامہ تیار کرتا ہے۔وہی سفرنامہ کامیاب مانا جاتا ہے جس کے لئے سیاح پہلے سے طے کر لے کہ مجھے اس سفر میں ’’روداد ‘‘ بھی تحریر کرنی ہے،سفرنامے میں دو خوبیاں ضرور ہونی چاہئیں۔ ایک تو وہ قاری کے دل میں سیروسیاحت کا شوق پیدا کردے اور اگر پہلےسے موجود ہے تو سفر نامہ آتش ِ شوق کو تیز تر کردے۔ دوسری یہ کہ منظر کشی ایسی مکمل اور جاندار ہو کہ ہر منظرکی صحیح اور سچی تصویر آنکھوں کے سامنے آجائے۔
سفر نامہ کیسے لکھتے ہیں ؟ / آئیں سفر نامہ لکھیں!
تحریر کی ایک قسم ”سفرنامہ“ لکھنا بھی ہے۔ سفرنامہ نگاری کا فن قدرے آسان ہے۔ اس میں کوئی عرق ریزتحقیق نہیں کرنی پڑتی، اور نہ ہی کوئی لمبے چوڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ زیادہ معلومات کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے۔ کلام کو مقفٰیٰ مسجع بھی نہیں کیا جاتا۔ سفرنامے میں بس کرنا یہ ہوتا ہے کہ مسافر جس راستے سے گزرا ہوتا ہے، اس کے حال احوال اور رُوداد کو عام فہم انداز میں بیان کرتا ہوا چلا جاتا ہے۔سفرنامہ نگار سفر ہی سفر میں ایک تاریخ بھی نقش کردیتا ہے۔ وہ قاری کو حال میں ماضی کے جھروکوں سے گزارتا ہے۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ سفرنامہ نگار بننے کے لیے کن کن چیزوں کا آنا ضروری ہوتا ہے؟ ایک کامیاب سفرنامہ نویس کیسے بنا جاسکتا ہے؟ وہ کون سے گُر اور فارمولے ہیں جس پر عمل پیرا ہوکر سفرنامہ لکھا جاسکتا ہے؟ سفرنامہ لکھنے کی ابتدا کیسے کرنی چاہیے؟ کیا سفرنامہ لکھنے کے لیے سفر کرنا بھی ناگزیر ہے؟ کیا ٹیبل اسٹوریوں کی طرح سفرنامہ بھی لکھا جاسکتا ہے؟ آج کل زیادہ تر سفرنامے کیسے لکھے جارہے ہیں؟ یہ اور اس جیسے بیسیوں تشنہ طلب سوالوں کا جواب حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
سفرنامہ لکھنے کی پہلی شرط تو یہ ہے کہ سفرنامہ نگار نے واقعتا سفر بھی کیا ہوا ہو۔ ٹیبل اسٹوری کی طرح ٹیبل سفرنامہ نہیں لکھا جاسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ سفر کرنے والے کا مشاہدہ تیز ہو، کیونکہ سفرناموں میں منظر نگاری کی جاتی ہے، جس علاقے اور جگہ کا سفر کیا ہوتا ہے، اس کی ایک ایک جگہ کی ایسی منظر کشی کی جاتی ہے کہ پڑھنے والا جب کبھی اس مقام پر جائے تو دیکھنے کے بعد اس کے ذہن میں وہ سارا منظر گھوم جائے اور وہ بے ساختہ کہہ اُٹھے کہ ہاں یہی وہ منظر اور جگہ ہے جس کا تذکرہ میں نے فلاں سفرنامے میں پڑھا تھا۔اسی طرح سفرنامے میں کردار بھی ہوتے ہیں۔ یہ کردار کبھی اصلی ہوتے ہیں اور کبھی کسی مجبوری کے تحت فرضی بھی ہوتے ہیں
کردار سازی کے بعد مکالمے کا نمبر آتا ہے۔ منظرنگاری کی طرح مکالمہ بھی سفرنامے کی جان کہلاتا ہے۔ مکالمے کے بغیر سفرنامہ ادھورا شمار ہوتا ہے۔ مکالمہ ان لوگوں سے ہوتا ہے، دورانِ سفر جن جن حضرات و خواتین سے مختلف موضوعات پر تبادلہ ¿ خیال کیا گیا ہے۔ جن سے بات چیت کرنے اور انٹرویو لینے کا موقع ملتا ہے۔ مکالمے نقل کرتے ہوئے ان کی باڈی لینگویج کو بھی الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یوں لکھا جاتا ہے کہ اس نے چائے کی پیالی رکھتے ہوئے کہا۔ میں نے ہوا میں مکا لہراتے ہوئے جواب دیا۔“
کردار سازی اور مکالمے کی طرح وہاں کے لوگوں کے حالات ، ملاقاتوں کا حال احوال اور حقائق لکھنے کے بعد اس پر تبصرہ اور تجزیہ بھی پیش کرنا ہوتا ہے۔ تاریخی واقعات کے تناظر میں موجودہ صورت حال کا ذکر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے فلسطین کا سفر کیا اور واپس آکر سفرنامہ لکھا۔ فلسطین اور فلسطینیوں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں وہاں کے اور عالمی حالات دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ”اب امن مذاکرات اور افہام و تفہیم کے علمبرداروں پر یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ کم از کم مذاکرات کے ناٹک کے ذریعے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے کچھ اور ہی کرنا پڑے گا۔ آج قبلہ ¿ اوّل بیت المقدس کے سرخ مینار اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی روہانسی آواز 59 اسلامی ممالک اور 2 ارب مسلمانوں کو پکار رہی ہے کہ ہمیں صہیونی چنگل سے آزاد کراﺅ، ہماری مدد کرو۔ اے مسلمانو! جاگو! فلسطین آہستہ آہستہ جارہا ہے، صرف 8 فیصد باقی رہ گیا ہے۔“
اسی طرح سفرناموں میں لفظوں سے بھی کھیلنا ہوتا ہے۔ جابجا ضرب الامثال، حکایات، واقعات، تشبیہات، استعارات، تلمیحات، متضاد، متقابل، متقارب، مصرعے وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔حرفوں، لفظوں، جملوں اور عمدہ تراکیب سے کھیلنے کا مقصد اپنے قارئین کو متنوع مواد فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ بوریت محسوس نہ کریں۔ اسی طرح کوشش کی جاتی ہے کہ اپنے پڑھنے والوں کو زیادہ سے زیادہ معلومات بھی فراہم کی جائیں، کیونکہ یہ معلومات اور انفارمیشن کا دور ہے۔ اس زمانے میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ چیزوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانے۔ اسی طرح اپنے قارئین کے ساتھ مختلف اور نئے نئے آئیڈیاز بھی شیئر کیے جاتے ہیں۔ اپنے اور اپنے دوستوں کے تجربات بھی بتائے جاتے ہیں۔
دو چار ادیبوں کے سفرنامے پڑھنے سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔جوشخص سفرنامہ نگار بننا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ ابنِ بطوطہ، مستنصر حسین تارڑ، کرنل اشفاق، عطاءالحق قاسمی، کرنل محمد خان، مفتی تقی عثمانی وغیرہ کے سفرنامے ضرور پڑھے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ سفرنامہ کیسے لکھا جاتا ہے؟ اور کن کن باتوں کا خیال کرنا ضروری ہوتا ہے؟
نوآموزوں، نوواردوں اور صحافت کے طلبہ و طالبات کے لیے آخری بات یہ ہے کہ سفرنامے کی ابتدا چھوٹے سے سفر سے کریں۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان لاہور میں رہتا ہے اور کراچی میں تعلیم حاصل کررہا ہے۔ اب لاہور سے کراچی تک کا جو اس نے سفر کیا ہے، اس کی مکمل اور پوری رُوداد لکھے۔ گھر سے نکلنے بلکہ سفر کی تیاری کرنے سے لے کر کراچی اپنے تعلیمی ادارے میں پہنچنے تک کی لمحہ بہ لمحہ، قدم بہ قدم تفصیل لکھے۔سفر کی تیاری کیسے کی؟ کیا کیا چیزیں سفری بیگ میں رکھیں؟ گھر سے نکلتے وقت چھوٹے بھائیوں نے کیا کہا تھا؟ لاڈلی بہن کے کیا تاثرات تھے؟ جدائی کے وقت والدین خصوصاً والدہ محترمہ کے کیا جذبات تھے؟ گھر سے اسٹیشن، بس اسٹینڈ یا ایرپورٹ تک کس نے پہنچایا؟ بھائی نے، والد نے یا ٹیکسی والے نے؟ گھر سے اسٹیشن تک راستہ بھر کیا کچھ دیکھا، سنا اور محسوس کیا؟ لاہور اسٹیشن، بس اڈّے یا ایرپورٹ پر کیا بیتی؟ اور پھر کراچی پہنچنے تک کیا کچھ ہوا؟
سفر میں انسان کو بے شمار تجربات اور مشاہدات ہوتے ہیں، لوگوں سے میل ملاپ ہوتا ہے۔ ہمسفروں سے بات چیت ہوتی ہے۔ وہ ساری باتیں سادگی کے ساتھ ایک ترتیب سے لکھتے چلے جائیں۔ سفر کی تیاری سے لے کر اپنی کلاس میں پہنچنے تک قدم بہ قدم اور لمحے لمحے کو لکھنا ہے۔ اس طرح دوچار چھوٹے چھوٹے سفروں کی لمبی لمبی تحریریں لکھنے سے آپ کو لکھنا آجائے گا۔صحافت کے میدان کے نووارد یاد رکھیں کہ مختلف اسفار اور مطالعاتی دورے صحافی کے لیے لازم ہوتے ہیں۔ جب بھی سفر کا موقع ملے تو ضرور کریں۔ جب بھی کسی کانفرنس، ورکشاپس اور اجتماعات میں شرکت کی دعوت دی جائے تو ضرور جائیں اور پھر واپس آکر اس کی پوری، مکمل اور جامع رُوداد لکھیں۔ اگر ایک گھنٹے کا بھی سفر کریں تو واپس آکر اپنے سفر کی سفر بیتی لکھیں، کہیں پر بھی جائیں واپسی پر اپنے تجربات اپنے قارئین سے شیئر کریں۔ اپنے مشاہدات بیان کریں۔ اپنی تحریر میں اپنے میزبانوں، مہمانوں، شرکائے مجلس کا ذکر تفصیل سے کریں۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جس نے اپنے ملک کے اندر کوئی نہ کوئی سفر نہ کیا ہو۔ ہر شخص نے لازمی سفر کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان سفروں کی رُودادیں لکھنے سے آغاز کریں۔ ہر سفر کے بعد اس کی سرگزشت احاطہ تحریر میں لائیں۔ ایک دو سال تک آپ نے اس طرح کرلیا تو ایک وقت آئے گا آپ کا شمار ممتاز سفرنامہ نویسوں میں ہونے لگے گا۔اپنا مطالعہ بڑھاتے رہیں۔ سفر کرتے رہیں۔ سفر کے بعد اس کی چھوٹی چھوٹی رُوداد لکھتے رہیں۔ اپنے پاس زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کرنے کی کوشش کریں۔ نئے نئے آئیڈیاز سوچیں۔ خیالات کو آنے دیں۔ خواب دیکھیں۔ تعلقات بنائیں۔ مثبت سوچ رکھیں۔ صبر سے کام لیں۔اور مسلسل لکھتے رہیں ۔